Type Here to Get Search Results !

دریا سوکھ رہے اور ہم سو رہے ہیں

تعارف: پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے جسے دنیا کے عظیم دریاوں کا تحفہ حاصل ہے۔ سندھ، چناب، جہلم، راوی، اور ستلج جیسے دریا اس سرزمین کی زرخیزی اور زراعت کی بنیاد ہیں۔ تاہم، گزشتہ چند دہائیوں سے ان دریاؤں میں پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، غیر منصوبہ بند آبپاشی، سیاسی بے حسی، اور ماحولیاتی تباہی اس بحران کے بنیادی اسباب ہیں۔ اس رپورٹ کا مقصد نہ صرف اس ماحولیاتی سانحے کی وجوہات کا جائزہ لینا ہے بلکہ اس کے ممکنہ حل بھی پیش کرنا ہے تاکہ پالیسی ساز، ماہرین ماحولیات، اور عام شہری ایک مؤثر ردعمل تشکیل دے سکیں۔باب اول: دریاؤں کی موجودہ حالت آج پاکستان کے دریا، جو کبھی جوش مارتے تھے، سوکھتے جا رہے ہیں۔ سندھ دریا، جو کہ پاکستان کی زراعت کی شہ رگ ہے، اپنی اصل سطح سے کئی گنا کم ہو چکا ہے۔ راوی اور ستلج جیسے دریا تو کئی مقامات پر محض گندے نالے بن چکے ہیں۔ کراچی، لاہور، ملتان اور دیگر بڑے شہروں میں پینے کے صاف پانی کی قلت معمول بن چکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی رفتار رہی تو آئندہ 20 برسوں میں پاکستان پانی کی شدید قلت والے ممالک میں سرفہرست ہو گا۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1000 مکعب میٹر سے بھی کم ہو چکی ہے۔باب دوم: پانی کی قلت کے اسباب1. بھارت کی آبی جارحیت: بھارت کی جانب سے ڈیمز کی تعمیر اور پانی کا رخ موڑنا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزیاں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ بھارت نے چناب، جہلم، اور نیلم جیسے دریاؤں پر متعدد ڈیم بنا لیے ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔2. ماحولیاتی تبدیلی: برفباری میں کمی، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی، اور درجہ حرارت میں اضافہ پانی کے ذخائر پر براہ راست اثر انداز ہو رہے ہیں۔ موسم کی شدت میں اضافے نے نہ صرف زرعی سائیکل کو متاثر کیا ہے بلکہ پانی کی طلب کو بھی کئی گنا بڑھا دیا ہے۔3. غیر منظم آبپاشی: پاکستان میں روایتی آبپاشی کے نظام، جیسے نہری نظام، میں بے پناہ ضیاع ہوتا ہے۔ اندازہ ہے کہ 40 سے 60 فیصد پانی فصلوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے۔4. حکومتی نااہلی اور عدم توجہ: پانی کے بحران پر سنجیدہ قانون سازی اور پالیسی سازی کا فقدان ہے۔ بیشتر حکومتی منصوبے یا تو کاغذی حد تک محدود ہیں یا کرپشن اور سیاسی مخالفت کی نذر ہو چکے ہیں۔5. شہری ترقی اور بے ہنگم صنعتی فضلہ: شہروں کی تیزی سے پھیلتی آبادی اور صنعتی فضلہ دریاؤں کو آلودہ کر رہا ہے، جو پانی کے ذخائر کو مزید غیر محفوظ بناتا ہے۔باب سوم: موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات موسمیاتی تبدیلی نے نہ صرف بارشوں کی شدت کو کم کیا ہے بلکہ گلیشیئرز کے پگھلاؤ کو بھی بڑھایا ہے۔ اس وقت ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے گلیشیئرز تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جو کہ دریاؤں کا اصل ماخذ ہیں۔ یہ عمل وقتی طور پر سیلابی کیفیت پیدا کرتا ہے، لیکن طویل المدت میں پانی کے مستقل ذرائع کو ختم کر رہا ہے۔ ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اگر گلیشیئرز کی موجودہ رفتار سے پگھلاؤ جاری رہا تو پاکستان کے آبی وسائل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔باب چہارم: حکومتی پالیسیوں کا جائزہ پاکستان میں واٹر پالیسی پر کام 2018 میں شروع ہوا، لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے سیاسی تنازعات کی نظر ہو چکے ہیں۔ چھوٹے ڈیمز کی تعمیر بھی سست روی کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ، واٹر مینجمنٹ کے جدید طریقوں کو اپنانے میں بھی کوتاہی برتی جا رہی ہے۔ پانی کے ڈیٹا کا شفاف اور بروقت اندراج نہ ہونے سے بھی پالیسی سازی متاثر ہو رہی ہے۔ نیز، بین الصوبائی تعاون کا فقدان پانی کی منصفانہ تقسیم میں بڑی رکاوٹ ہے۔باب پنجم: عوامی ردعمل اور شعور کی کمی عوام کی اکثریت پانی کے ضیاع کو ایک مسئلہ ہی نہیں سمجھتی۔ نہ گھروں میں پانی کی بچت کی جاتی ہے، نہ کھیتوں میں جدید تکنیک اپنائی جاتی ہے۔ میڈیا اور تعلیمی اداروں کا کردار اس شعور کی بیداری میں ناکافی رہا ہے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پانی کے مسائل کو نصاب کا حصہ بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی مذہبی رہنماؤں اور کمیونٹی لیڈروں کو بھی آگے آنا ہو گا تاکہ اجتماعی شعور بیدار ہوباب ششم: عالمی مثالیں اور کامیاب ماڈلز اسرائیل، آسٹریلیا اور نیدرلینڈز جیسے ممالک نے واٹر مینجمنٹ کے جدید طریقے اپنا کر صحرا کو بھی سرسبز کر دیا۔ اسرائیل میں ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے پانی کا استعمال انتہائی مؤثر انداز میں کیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں پانی کی ری سائیکلنگ کو قانوناً لازم قرار دیا گیا ہے۔ نیدرلینڈز نے پانی کے بہاؤ کو منظم کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کی انجینئرنگ تکنیک استعمال کی ہیں۔ ان ممالک سے سیکھ کر پاکستان بھی اپنا ماحولیاتی مستقبل محفوظ بنا سکتا ہے۔باب ہفتم: حل اور تجاویز1. نئے ڈیمز اور ذخائر کی فوری تعمیر2. پانی کی چوری اور ضیاع کے خلاف سخت قوانین3. جدید آبپاشی تکنیکس کا فروغ، جیسے ڈرپ اور اسپرنکلر ایریگیشن4. تعلیمی اداروں میں پانی کی اہمیت پر مضامین اور عملی تربیت5. بین الاقوامی سطح پر بھارت کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا6. میڈیا مہمات اور عوامی شعور کی بیداری کے لیے قومی سطح کی مہم7. بین الصوبائی واٹر مینجمنٹ بورڈ کا قیام8. شہری و دیہی سطح پر ری سائیکلنگ یونٹس کی تنصیب نتیجہ: اگر ہم نے ابھی قدم نہ اٹھایا تو آئندہ چند برسوں میں پاکستان ایک آبی قحط کا شکار ہو جائے گا۔ دریا جو ہماری تہذیب، ثقافت اور معیشت کی بنیاد ہیں، اگر سوکھ گئے تو ہم صرف صحرا میں نہیں، بلکہ ایک بکھرتے معاشرے میں بدل جائیں گے۔ حکمرانوں کی نیند، عوام کی بے حسی، اور ماحولیاتی تغیر سب مل کر ایک ایسا بحران پیدا کر رہے ہیں جو ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو نگل سکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم جاگیں، سوچیں، اور عمل کریں۔ یہ وقت صرف سوچنے کا نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر قومی تحریک کا ہے جو دریاوں کو بچانے اور زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے اُٹھے۔

                           (مدثر رحمان)        


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.